حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے چینیوٹ شہر کی مرکزی جامع مسجد میں اسلامی اقتصادی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قرآنِ کریم اقتصادی ترقی کا مخالف نہیں ہے، بلکہ اقتصادیات کے لیے باقاعدہ طور پر ایک نظام پیش کیا ہے؛ قرآنِ مجید میں درجنوں اقتصادی نظام جیسے زکات، خمس، صدقہ اور قرض الحسنہ وغیرہ کا تذکرہ موجود ہے، غربت کو اسلام نے کفر قرار دیا ہے اور غربت کے خاتمے پر تاکید بھی کرتا ہے۔
انہوں نے اسلامی نظامِ معیشت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرے میں کوئی فقیر نظر نہ آئے، بلکہ اقتصاد کے حوالے سے مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہیے، البتہ اسلام نے مال و دولت کو ہدف بنانے سے منع کیا ہے۔
ڈاکٹر بشوی نے دینی مدارس اور علمائے کرام کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ آج کچھ لوگ دینی مدارس کے خلاف بات کرتے ہیں، جبکہ انہی مدارس سے باہر آنے والے علماء رہنما اور دین شناس ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پتھر کو ہیرا اور زیرو کو ہیرو بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے معاشرے میں مدارس کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہمیں مدارس کو روز بروز مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ انہی علمی مراکز ہی سے امت حزب اللہ وجود میں آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اسلام کو فقط رسم و رواج تک محدود کیے رکھا ہے، بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ قرآن ہمارے لیے اترا ہی نہیں ہے، اسی لیے معاشرے قرآنی تعلیمات کے بر خلاف عمل انجام پاتا ہے۔
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ ہمارا طرزِ زندگی قرآنی نہ ہونے کی وجہ سے آج ہم دشمن کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں، بلکہ سازشوں کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔
انہوں نے ولایت کے موضوع پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ ولایت کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہیں؛ ولایت کوئی فرعی چیز نہیں ہے، بلکہ ولایت ہر چیز کی اصل ہے اور فروعات فرائض اور عمل کا نام ہے اور ولایت عمل نہیں، بلکہ عقیدہ ہے، آج ہماری مشکل، ولایت کے الٰہی اور قرآنی مفہوم سے عدم واقفیت ہے، جس ولایت کا ذکر آیت ولایت میں آیا ہے وہ تصرف اور اختیار کے معنی میں ہے، تصرف جان ومال بھی اور کائنات پر بھی تصرف اور یہ حق چودہ معصومین علیہم السّلام کے لیے ہے، اگر وہ چاہیں تو کسی کی جوانی لوٹا دیں؛ یہ جان پر تصرف ہے اگر وہ چاہیں تو ڈوبے ہوئے سورج کو پلٹا دیں، یہ کائنات پر تصرف اور اختیار ہے۔
شیخ یعقوب بشوی نے عقیدہ اور عمل کو دو الگ چیزیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ عقیدے میں ولایت کا صحیح تصور آئے تو عملی طور پر حزب اللہ وجود میں آتی ہے اور یہی حزب اللہ ناقابلِ شکست ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا: و من یتول اللہ و رسولہ و الذین آمنوا فان حزب اللہ ھم الغالبون. اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حزب اللہ اللہ، رسول اور والذین آمنوا کی ولایت کو تسلیم کئے بغیر وجود میں نہیں آئے گی اور اگر خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور معصومین علیہم السّلام کی ولایت کو قبول کریں گے تو نتیجتاً امت حزب اللہ وجود میں آئے گی اور آخر میں یہی امت غالب آئے گی۔
انہوں نے حزب اللہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ فقط لبنان میں نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں کوئی علی ولی اللہ پڑھنے والا موجود ہوگا وہاں وہاں امت حزب اللہ ہوگی؛ آج پوری دنیا میں شیطانی لشکر کے مقابلے میں یہی امت برسر پیکار ہے، ہماری قدرت، اللہ پر بھروسہ ہے؛ آج پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ تمام طاقتوں نے مل کر ایران پر حملہ کیا، لیکن برطانوی سابق اینٹلی جنس افسر کے بقول: کوئی ناشناختہ دفاعی سسٹم ایران کی حفاظت کر رہا تھا، جس نے ہمارے جہازوں کو ایران کے اندر جانے سے روک دیا اور ہمارے اوپر شدید خوف طاری ہوا، اس طرح پہلا حملہ ناکام ہوا؛ ہم تین مرحلوں میں ایران کو تباہ کرنا چاہتے تھے: پہلے مرحلے میں تمام ایرانی دفاعی نظام کو تباہ کرنا تھا، جب پہلا حملہ ناکام ہوا تو پھر دوسرے اور تیسرے مرحلے کی نوبت ہی نہیں آئی۔